حسرتوں کے چراغ


 پھر رات آئ
پھر تاریکی نے روشن کئے 
دیئے یادوں کے اور حسرتوں کے چراغ
کہ جن سے رات کی تاریکی کم تو نہ ہوئ
راہیں نظر تو نہ آئیں
منزل واضح تو نہ ہوئ
لیکن تذبذب کے کالے بادلوں،
جزبات و احساسات سے بے نیاز 
خود غرضی کی للکاروں،
 اور زندگی کے خوفناک سوالوں،
کے درمیان کچھ لمحوں کے لئے،
 ساری توجہ خود پر مرکوز کۓ ہوۓ
 یہ اطمینان و آفیت بخشتے ہیں
کہ لاکھ دشمن صحیح
مارِ آستین کئ
فریب و خود غرضی کا عالم صحیح
پر ان راحت بخش چراغوں جیسے پھول اب بھی ہیں چمنِ ویراں میں
جنہوں نے ابھی تک اعتماد نہیں توڑا
جو دور ضرور ہیں شاید خیالی بھی 
پر اپنی خوشبو سے مسرور کۓ جا رہیں ہیں


Popular Posts